شاہِ نقشبند حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبند اویسی البخاری رحمۃاللہ علیہ

  • Admin
  • Sep 28, 2021

شاہ ِنقشبند حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبند اویسی البخاری رحمۃاللہ علیہ

تعارف:

نقشبند کے لغوی معنی’ مصور‘ کے ہیں،اصطلاح ِتصوف میں اس لقب سے مراد ایسی شخصیت ہے جو علم الہٰی کی لاثانی تصویر کھینچ دے۔ حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبند بخاری رحمۃ اللہ علیہ اسی لقب سے ملقب تھے ۔ 

آپؒ کا اسم گرامی "محمد "جبکہ والد ماجد کا نام بھی "محمد" تھا۔ آپؒ بخارا سے تین میل کے فاصلہ پر ایک گاؤں قصر ہندواں میں پیدا ہوئے جو بعد میں ’ قصر عارفاں‘ کے نام سے معروف ہوا۔

سلسلہ نسب :

آپ ؒکا سلسلۂ نسب یہ ہے ۔

حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبند ؒبن سید محمد بخاری ؒبن سید جلال الدین ؒبن سید برہان الدینؒ بن سید عبداللہ ؒبن سید زین العابدین ؒبن سید قاسم ؒبن سید شعبانؒ بن سید برہان الدین ؒبن سید محمود ؒبن سید بلاق ؒبن سید تقی صوفی خلوتؒی بن سید فخرالدینؒ بن سید علی اکبرؒ بن امام حسن عسکری ؑبن امام علی نقیؑ بن امام محمد تقی ؑبن موسیٰ رضاؑبن امام موسیٰ کاظمؑ بن امام جعفرصادق رضی اللہ عنہم اجمعین اَفَاضَ اللہ علینا من برکاتہم۔

ولادت :

 آپؒ 4 محرم الحرام 718ہجری میں پیدا ہوئے ۔ آپ ؒنسلاََ تاجک تھے ۔ حضرت بابا سماسی رحمۃ اللہ علیہ آپؒ کی ولادت سے قبل ہی آپ ؒکے متعلق بشارت دے چکے تھے ۔’ نقشبند ‘کا لقب کافی عرصہ کے بعد آپؒ کے نام کا حصہ بنا۔

نقشبند   لقب کی وجہ تسمیہ :

 تاریخ مشائخ نقشبندیہ میں اس حوالہ سے ایک واقعہ تحریر ہے کہ جب آپؒ نے دوسری مرتبہ حج کے ارادہ سے مکہ مکرمہ کے سفر کا ارادہ فرمایا تو آپؒ مولانا زین الدین سے ملاقات کے لئے" ہرات" تشریف لے گئے ۔تین روز تک آپ ؒنے وہاں قیام فرمایا۔ ایک روز نماز فجر کے بعد مولانا زین الدین ؒنے آپؒ سے فرمایا کہ اے خواجہ! ہمارے لئے حقیقت کا نقشہ کھینچ دیں(برائے ماہم اے خواجہ نقشبند) آپ ؒنے ازراہِ انکسار ارشاد فرمایا ہم آپ کے پاس اس لئے آتے ہیں کہ اللہ کے سوا ہر چیز کا نقش میرے دل سے مٹا دیں(امدیم تا نقش پریم) ۔غالبًااسی روز سے ’ نقشبند‘ آؒپ کے اسم گرامی کا حصہ بنا اور پھر اسی نام سے ایک عظیم روحانی سلسلہ کا آغاز بھی فرمایا۔

حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبند بخاری علیہ الرحمہ کی ذاتِ اقدس وہ ذات ہے کہ جن کے اسمِ مبارک پر سلسلہ نقشبندیہ کا نام رکھا گیا ہے۔آپ ؒکے ظاہری مرشد حضرت امیر کلال ؒہیں۔کلال کہتے ہیں برتن بنانے والے کو۔اُن دنوں میں حضرت کلالؒ کا برتن سازی کا کاروبار تھا اور حضرت بہاؤالدین نقشبند ؒبرتنوں پر نقش و نگار بنایا کرتے تھے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کی عادت مبارک یہ تھی کہ آپ ؒبرتنوں پر نقش بنایا کرتے اور ہر وقت ذکر اسم ذات ِ خفی میں مستغرق رہتے تھے۔

ہتھ کار وَل، دل یار وَل

ایک دفعہ یوں ہوا کہ حضرت  بہاؤالدین نقشبند ؒذکر اسم ذات میں مستغرق رہے تو وقت گزر گیا اور نقش نہ بن سکے، کسی نے جا کر حضرت امیر کلالؒ سے شکایت کر دی کہ حضور! بہاؤالدین ؒنے تو آج کام نہیں کیا۔

حضرت امیر کلالؒ چونکہ جانتے تھے تو حضرت بہاؤالدین ؒکو بلا کہ کہا!

"بہاؤالدین آج کام نہیں کیا؟ "

تو آپ ؒخاموشی سے اٹھ کر تشریف لے گئے، ادباً خاموش رہے، باہر نکلے تو عجب کیفیت طاری ہوئی کہ بے ادبی ہو گئی ہے کام نہ کر سکا۔ 

ذکر اسم ِذات رگ رگ میں، نس نس میں رچ بس چکا تھا اسی کیفیت میں برتنوں کو دیکھنا شروع کیا، جس برتن پر نگاہ پڑتی گئی      الله ،الله   لاکھوں کروڑوں دفعہ ہر برتن پر اسم الله لکھا ہوا ہے، مریدین نے حضرت کلؒال کو بتایا آج جتنے تیار ہوئے سب پر اللہ اللہ لکھا ہوا ہے، جب امیر کلالؒ جی نے مشاہدہ فرمایا تو عرض کرنے لگے ہاں اب ٹھیک ہے، اسی واقعے کی نسبت سے آپ ؒکو نقشبند کہا جاتا ہے۔

اے شاہ نقشبند تو نقش میرا ببند_نقشم چناں ببند کہ گویند نقشبند

اے شیخ نقشبند! میرے دل کا نقش بھی باندھ دیجئے اور اسطرح نقش باندھیے کہ لوگ مجھے نقشبند کہیں

جس وقت آپؒ حضر ت خواجہ مولانا زین الدینؒ کی ملاقات کے لئے تشریف لے گئے توصبح کی نماز کے بعد مولانا اورادِ جہریہ میں مشغول ہوئے اور حضرت خواجہؒ بھی آکر بیٹھ گئے، مولانا نے فرمایا کہ اے خواجہ ہمارا نقش بھی باندھو، یعنی ہمارے حال پر توجہ فرمائیں، حضرت خواجہ صاحب ؒنے بطورتواضع کے جواب دیا کہ ہم خود نقش بننے کےلئے آئے ہیں۔ اس کے بعد مولانا آپ ؒکومکان پر لائے اور آپ ؒکی ضیافت کی اور دونوں کی باہم بڑی صحبت رہی ،تین دن تک آپؒ نے ان پر توجہ فرمائی غالبا اسی روز سے آ پؒ کا لقب نقشبند ہوا ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ چونکہ آؒپ کی پہلی ہی صحبت میں ماسوا کا نقش سالک کے دل سے مٹ جاتا ہے اس لئے آپ ؒنقشبند کے لقب سے مشہور ہوئے ہوں ۔(حضرات القدس دفتراول ص165/166)

حضرت خواجہ صاحبؒ کے اعمال ِاداء نوافل کے بارہ میں حضرت مولانا یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے رسالہ میں اس طرح بیان کیا ہے کہ آپ ؒتہجد کی نمازبارہ رکعتیں چھ سلام سے پڑھا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ نماز حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فرض رہی ہے اور آخر میں نفل ہوگئی ہے اور بعض علماء نے کہا ہے کہ ہمیشہ فرض رہی نفل نہیں ہوئی۔(حضرات القدس دفتراول ص 167

 آپؒ کا زمانہ ولایت امت مسلمہ میں تصوف کے عروج کا زمانہ تھا ۔اسی دور میں حضرت سید علی ہمدانیؒ(م۔1385) کشمیر میں نور معرفت کی شمع جلا ئے ہوئے تھے ۔ حضرت مخدوم جہانیاں ؒجہاں گشت سہروردی (م۔1386)سندھ اور پنجاب کے قبائل اور جاٹوں کو توحید کا جام پلا رہے تھے اور حضرت شاہ نقشبندؒ وسطی ایشیا میں توحید کا پرچم بلند کر رہے تھے جبکہ سیاسی طورپر بھی کئی نئی مملکتوں کا ظہور ہو رہا تھا۔ کئی حکومتیں ترتیب پار ہی تھیں امیر تیمور عین انہی سالوں میں ایشیا میں حکومتوں کو مسخر کر رہا تھا اور ترکی کے عثمانی یورپ کی طرف پیش قدمی میں مصروف تھے اور اسلامی سلطنت کی سرحدوں کی توسیع کر رہے تھے ۔حضرت بابا سماسی رحمۃ اللہ علیہ نے اُن کو اپنی فرزندی میں لے لیا اور تربیت کا ذمہ خود اٹھایا۔ مزید تربیت کے لئے اپنے ایک مرید صادق حضرت سیدامیر کلال رحمۃ اللہ علیہ کے سپرد کیا۔ حضرت سید امیرکلال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مرشد کے حکم کی تعمیل میں دن رات ایک کیا یوں آپ کی طبیعت قدرتی طور پر یادِ الٰہی کی طرف مشغول ہو گئی۔

 عین جوانی کے عالم میں خلوت پسندی آپؒ کومحبوب ہو گئی۔آپ نے جوانی کے عالم میں مزاراتِ صالحین پر حاضر ہوکر وہاں مراقبہ کو اپنا معمول بنا لیا۔ حضرت بہاؤالدین نقشبندؒ جو کہ ایک سید خاندان کے فرد تھے ۔

جن کا سلسلہ نسب سیدناحسن عسکری علیہ السلام کے واسطہ سے سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے جاملتا ہے ۔ان پر ایسے راز جلد ہی منکشف ہونے لگ گئے جس کو حاصل کرنے کے لیے سالکان ِطریقت سالہا سال گزار دیتے ہیں۔ آپؒ نے اُن بزرگوں کے مزارات پر حاضری کو معمول بنایا جو دنیا سے بے نیازی پر پختہ یقین رکھتے تھے ۔ایک مدت تک آپؒ حضرت خواجہ محمد واسع، حضرت خواجہ محمود فغنوی اور حضرت خواجہ مزداخن رحمۃ اللہ علیہم کے مزار پر حاضر

 ہوتے ۔

جناب ڈاکٹر اسحاق قریشی اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں کہ ان مزارات پر دیے جل رہے تھے لیکن ان کی لو مدھم تھی۔ حضرت خواجہ نقشبندؒ ان کی لَوبڑھا نے کے لیے تشریف فرما ہو گئے اسی اثناء میں آپؒ نے ملاحظہ فرمایا کہ ایک پردہ لٹک رہا ہے اس کے عقب میں ایک تخت رکھا ہو اہے جس کے گرد بہت سے لوگ ہیں۔ان میں سے حضرت بابا سماسی رحمۃ اللہ علیہ کو آپؒ نے پہچان لیا جبکہ دیگر بزرگوں کا تعارف حضرت خواجہ احمد صدیق ، حضرت خواجہ علی رامیتی علیہما الرحمۃ کے نام سے ہوا۔ ایک بزرگ جو تخت پر تشریف فرماتھے ان کا اسم گرامی حضرت خواجہ عبد الخالق غجدوانیؒ تھا۔ آپ کی طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ ان مدھم بتیو ں کو تم نے بلند کرنا ہے ،اب تمہارے ذمہ ہے اور تم میں استعداد بھی ہے ۔آپؒ نے حضرت خواجہ نقشبندؒ کو نصیحت فرمائی کہ ہر حال میں شریعت پر ثابت قدم رہنا، سنت پر عمل کرنا اور بدعت سے بچنا،یہ لازم رکھو کہ ہر دم سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم کی تلاش میں رہنا ہے ۔

پھر فرمایا:میں نے ان ہدایات کے ساتھ آپؒ کو حضرت سید امیرکلال کی پناہ میں دے دیا اس کشف کے بعد آپ ؒکی بیعت تو حضرت کلال سے تھی لیکن معاملات تصوف میں آپ ؒہمیشہ حضرت عبد الخالقؒ غجدوانی کے اقوال اوران کے طریقہ پر عامل رہے ۔ اس نیم باز مکاشفہ سے آپؒ کی زندگی کا ایک رخ متعین ہو گیا۔

آپ ؒنے حضر ت سید امیرکلال رحمۃ اللہ علیہ کی رہنمائی میں تصوف کی باقاعدہ منازل طے فرمائیں،عبادات و ریاضت میں خوب محنت کی، حضرت خواجہ غجدوانیؒ کی ہدایت کے مطابق ہمیشہ عزیمت پر عمل کیا۔رخصت سے دور رہے ،احادیث مقدسہ اور آثارِ مبارکہ کی تلاش میں رہے ۔ آپ ؒعلماء کی صحبت میں علوم دینیہ بھی حاصل کرتے رہے جبکہ سید کلال کی رہنمائی میں ذکر و مراقبہ میں بھی برابر مصروف عمل رہے ۔

آخر ایک دن حضرت کلال نے فرمایا’’اے میرے فرزند بہاؤالدین! حضرت بابا سماسی ؒنے جو تمہاری تربیت کی وصیت فرمائی تھی چنانچہ اس وصیت کے مطابق میں نے تمہاری خوب تربیت کی ہے ۔ اب تمہیں اجازت ہے کہ تم شاہراہ طریقت پر سفر کا آغاز کرو‘‘(تاریخ مشائخ نقشبندیہ)۔

آپؒ نے ایک مقام پر ارشاد فرمایا کہ روحانی منازل اور مقامات طے کرتے وقت شیخ منصور حلاج کی صفت دو دفعہ میرے وجود میں آئی لیکن خدا کی عنایت اس مقام سے گزر گیا۔ آپؒ فرماتے ہیں کہ مجھے شیخ جنیدؒ، شیخ بایزید بسطامیؒ، شیخ شبلی ؒاور شیخ منصور ؒحلاج کے مقامات کی سیر کرنے کا موقع ملا یہاں تک کہ مجھے بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری کا موقع نصیب ہوا اور وہاں میں نے ان تمام آداب کا خیال رکھا جو بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شایان شان تھے ۔

آپؒ کے مرید پہلے خلیفہ اور جانشین حضرت علاؤالدین عطار رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت خواجہؒ صاحب کی عنایت کا یہ عالم تھا کہ پہلے قدم پر ہی طالب مراقبہ کی سعادت حاصل کر لیتا تھا۔ زندگی کے آخری حصہ میں آپؒ بخارا میں ہی قیام پذیر رہے ۔ آپؒ کے روز مرہ کے معمول میں خدمت ِ خلق کا پہلو نمایاں تھا۔مختلف راستوں کی دیکھ بھال اور مرمت آ پؒ کا خصوصی مشغلہ تھا کہ گزرتے ہوئے لوگوں کوتکلیف نہ ہو۔آپؒ کا پیشہ زراعت تھا ،ہر سال مختلف فصلیں کاشت کرتے خصوصا جو اور ماش کی کاشت کرتے اور اسی سے گھر اور لنگر کا نظام چلتا تھا۔ آپؒ کے فقر کا یہ عالم تھا کہ شہر بھر میں کوئی ذاتی مکان نہ تھا کسی کے مکان میں رہائش رکھتے ۔ سردیوں میں فرش پر گھاس بچھا دی جاتی اور گرمیوں میں بوریا کا بستر ہوتا۔ گھر میں کوئی خادم نہ تھا ۔ گھر کے سارے کام اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خود کرتے ۔ اکثر کھانا خود بناتے اور مہمان نوازی میں حد درجہ مبالغہ فرماتے ۔ مہمان کی خدمت کے لئے بہت زیادہ اہتمام فرماتے ، خصوصی چراغ مہمان کے سامنے رکھتے اور خود کھڑے ہو کر ان کو کھانا کھلاتے ۔ آپ ؒکے لنگر پکانے والوں کو ہدایت تھی کہ غصہ، کراہت یا غفلت کے عالم میں کھانانہ بنانا کیونکہ اس طرح کے کھانے میں برکت نہیں ہوتی۔ کوئی ہدیہ پیش کرتا تو اس کو بخوشی قبول فرماتے لیکن ساتھ ہی اس کے بدلے اس پر احسان (یعنی نیک سلوک )کرتے ۔

وصال:

 آپ ؒفرماتے کہ جب میرا آخری وقت آئے گا تو سب کو مرنا سکھاؤں گا چنانچہ جب وفات کا وقت قریب آیا تو دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے اور دیر تک دعا مانگتے رہے ۔جب دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرے توجان جان ِآفریں کے سپرد کر دی۔آپ کی عمر مبارک 73سال تھی۔ 3ربیع الاول 791ھ ، 1389ء بروز پیر انتقال فرمایا۔ مزار پرانوار بخارا(ازبکستان) میں ہے ۔

شجرہ شریف و سلسلہ عالیہ:

خاندان نقشبندیہ مجددیہ فضلیہ غفاریہ بخشیہ طاہریہ

حضرت محبوب کبریا سید الانبیاء خاتم المرسلین شفیع المذنبین امام الاولین و الاٰخرین سیدنا و مولانا محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ

 صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

وصال شریف بعمر 63 سال، 12 ربیع الاول سنہ 11ھ۔ آرام گاہ گنبذ خضرا، مدینہ منورہ، سعودی عرب۔

حضرت خلیفہ بلا فصل سید البشر بعد الانبیاء امیر المؤمنین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیرت22 جمادی الثانی، 13ھ بعمر 63 سال گنبدخضریٰ، مدینہ منورہ، سعودی عرب۔

حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حالات10 رجب 33ھ مدائن، عراق۔

3۔حضرت فقیہ اعظم سیدنا قاسم بن محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ محالات24 جمادی الثانی 101ھ یا 106ھ یا 107ھ سعودی عرب۔

حضرت امام العارفین شیخ المحققین امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حالات15 رجب 148ھ ،مدینہ منورہ، سعودی عرب۔

حضرت سلطان العارفین خواجہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حالات15 شعبان 261ھ بسطام، ایران ۔    

حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حالات10 محرم 425ھ خرقان، ایران۔

حضرت خواجہ ابوالقاسم گرگانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حالات23 صفر 450ھ۔

حضرت خواجہ ابوعلی فارمدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حالات4 ربیع الاول 511ھ یا 477ھ مشہد، ایران۔

حضرت خواجہ ابویوسف ہمدانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حالات27 رجب 535ھ مرو۔

حضرت خواجہ عبدالخالق غجدوانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سوانح12 ربیع الاول 575ھ بخارا، ازبکستان۔

حضرت خواجہ عارف ریوگری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  حالات1 شوال 616ھ ریوگر نزد بخارا، ازبکستان۔12حضرت خواجہ محمود انجیرفغنوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حالات17 ربیع الاول 715ھ انجیرفغنہ نزد بخارا، ازبکستان۔

حضرت خواجہ عزیزان علی رامیتنی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حالات27 رمضان 715ھ یا 721ھ خوارزم۔

حضرت خواجہ بابا سماسی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حالات10 جمادی الثانی 755ھ سماس، نزد بخارا، ازبکستان۔

حضرت خواجہ امیر کلال سید شمس الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حالات2 جمادی الثانی 772ھ سوخار، نزد بخارا، ازبکستان۔

حضرت شیخ المشائخ خواجہ شاہ بہاء الدین نقشبند بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حالات3 ربیع الاول 791ھ بخارا، ازبکستان۔

حضرت خواجہ علاؤ الدین عطار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حالات20 رجب 804ھ جفانیاں، از ماوراء النہر۔

حضرت خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حالات5 صفر 851ھ ہلغنون، تاجکستان۔

حضرت خواجہ عبیداللہ احرار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حالات29 ربیع الاول 895ھ سمرقند، ازبکستان۔

حضرت خواجہ محمد زاہد وخشی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سوانح1 ربیع الاول 936ھ وخش، نزد بخارا، ازبکستان۔

حضرت خواجہ درویش محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سوانح19 محرم 970ھ اسقرار، ترکی۔

حضرت خواجہ محمد امکنگی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سوانح22 شعبان 1008ھ امکنہ، نزد بخارا، ازبکستان۔

حضرت خواجہ محمد باقی باللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حالات25 جمادی الثانی 1012ھ قطب روڈ، دہلی، ہندوستان۔

حضرت شیخ المشائخ امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سوانح28 صفر 1034ھ سرہند شریف، ہندوستان۔

حضرت خواجہ محمد معصوم فاروقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حالات9 ربیع الاول 1079ھ سرہند شریف، ہندوستان۔

حضرت خواجہ سیف الدین فاروقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حالات19 یا 26 جمادی الاول 1096ھ سرہند شریف، ہندوستان۔

حضرت خواجہ محمد محسن دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حالات دہلی، ہندوستان۔

حضرت خواجہ نور محمد بدایونی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سوانح11 ذو القعدہ 1135ھ دہلی، ہندوستان۔

حضرت خواجہ مرزا مظہر جان جاناں شہید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سوانح10 محرم 1195ھ خانقاہ مظہریہ، دہلی، ہندوستان۔

حضرت خواجہ شیخ المشائخ نقشبند ثانی شاہ غلام علی دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سوانح22 صفر 1240ھ، بعمر 84 سالخانقاہ مظہریہ، دہلی، ہندوستان۔

حضرت خواجہ ابو سعید فاروقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سوانح1 شوال 1250ھ خانقاہ مظہریہ، دہلی، ہندوستان۔

حضرت خواجہ احمد سعید فاروقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سوانح2 ربیع الاول 1277ھ جنت البقیع، مدینہ منورہ، سعودی عرب۔

حضرت خواجہ دوست محمد قندھاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سوانح22 شوال 1284ھ موسیٰ زئی شریف، ڈیرہ اسماعیل خان، پاکستان۔

حضرت خواجہ محمد عثمان دامانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سوانح22 شعبان 1314ھ موسیٰ زئی شریف، ڈیرہ اسماعیل خان، پاکستان۔

حضرت خواجہ محمد لعل شاہ ہمدانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سوانح27 شعبان 1323ھ دندہ شاہ بلاول، پنجاب، پاکستان۔

حضرت خواجہ محمد سراج الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سوانح26 ربیع الاول 1333ھ بعمر 36 سال موسیٰ زئی شریف، ڈیرہ اسماعیل خان، پاکستان۔

حضرت شیخ المشائخ محبوب الٰہی خواجہ غریب نواز پیر فضل علی قریشی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سوانح1 رمضان المبارک 1354ھ، بمطابق 28 نومبر 1935ع مسکین پور شریف، ضلع مظفرگڑھ پاکستان۔

حضرت قطب الاولیاء امام العارفین خواجہ محمد عبدالغفار المعروف پیر مٹھا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سوانح8 شعبان 1384ھ بمطابق 1964ع رحمت پور شریف، لاڑکانہ، سندھ پاکستان۔

حضرت شاہ شفقت ابر رحمت خواجہ اللہ بخش عباسی المعروف سوہنا سائیں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سوانح6 ربیع الاول 1404ھ بمطابق 12 دسمبر 1983ءاللہ آباد شریف، نزد کنڈیارو، سندھ پاکستان۔

حضرت مجدد زمان شیخ العلماء و الاولیاء قطب العارفین شیخ المشائخ خواجہ محمد طاہر عباسی المعروف محبوب سجن سائیں

 مد ظلہ العالی و دامت برکاتہ علینا۔1963

استفادہ از:

( 2010ء جماعت اصلاح المسلمین)